News

How to make a billion bucks that cannot pay university fees?

ہر ماہ پندرہ تاریخ پر فیس جمع نہ کرانے والوں کو کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہ ہو گی۔‘‘ یہ اعلان ہونے کے بعد میری پریشانی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ کافی دنوں سے میں اپنی یونیورسٹی فیس کے بارے میں بہت پریشان تھا۔ گھر کے حالات کچھ ایسے نہ تھے کہ میں اپنی بھاری بھر کم فیس کا بوجھ اپنے والدین کے کاندھوں پر ڈال دیتا۔ادھر میرے پاس بھی اس کا بظاہر کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ اسے مقررہ دن پر ادا کرپاتا۔ مجھے ڈاکٹر بننے کا بہت زیادہ شوق تھا، لیکن اب مجھے خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ کہیں میرا ڈاکٹری کا خواب چکنا چور نہ ہو جائے۔میں ایک دن پریشانی کے عالم میں اسکول پہنچا تو نوٹس بورڈ پر آویزاں اعلان پڑھ کر مجھے شدید خطرہ لاحق ہو گیا۔ فیس ادا کرنے کا دن قریب آ چکا اور میری جیب میں دھیلا تک نہ تھا۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کروں۔ میرا ضمیر بھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔گھر میں غربت کا ڈیرہ تھا۔ اس لیے میں اپنا تعلیمی خرچ پورا کرنے کے لیے ایک اسٹور پر کام کرتا تھا۔ وہاں سے ملنے والی مزدوری سے بمشکل گزارا ہو رہا تھا۔

یونیورسٹی کی فیس زیادہ تھی، جو میری استطاعت سے باہر تھی۔ میں پارٹ ٹائم کی جاب سے اسے پورا نہیں کر سکتا تھا۔ اپنی پریشانی کو کم کرنے کے لیے اپنے ایک پرانے اور دیرینہ دوست کے پاس چلا گیا کہ اس سے کوئی مشورہ یا بات وغیرہ کر وں، جو میری پریشانی کو ہلکا کر دے اور اس مشکل سے نکلنے کی کوئی سبیل پیدا ہو۔وہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس دن گرم لُو چل رہی تھی۔ چلچلاتی دھوپ اور دوپہر کا وقت۔ میں اپنے دوست کے گھر میں موجود تھا۔ میرے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ میرے دوست پیٹربک نے مجھے دیکھا تو میری پریشانی بھانپ گیا۔ میں نے ساری صورت حال بتادی۔ اس کے بعد اس نے مجھے مشورہ دیا کہ ’’آپ ایک سینڈوچ شاپ کھول لیں۔

‘‘ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا،یہ جواب میری توقع سے بہت مختلف تھا۔ میں گہری سوچ میں پڑ گیا۔ پیٹر نے میری ہمت یوں بندھائی کہ اگر میں یہ بزنس شروع کروں تو وہ بھی میرا پارٹنر ہو گا۔میرے لیے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا، میرے پاس تو یونیورسٹی کی فیس دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ بزنس کے لیے تو سرمایہ چاہیے، وہ میں کہاں سے لاتا؟ یہ مسئلہ صرف میرے ساتھ نہ تھا، بلکہ دنیا میں جو شخص بھی بزنس کا ارادہ کرتا ہے اسے مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دوسروں کی نوکری چاکری کرتے کرتے میں بھی تھک چکا تھا۔ اب اپنا بزنس شروع کرنے کی خواہش انگڑائی لینے لگی ۔ اس تمنا کو آخر پیٹر ہی نے پورا کر دیا۔ اس نے بزنس شروع کرنے کے لیے ایک ہزار ڈالر بطورِ قرض دیے۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھوں کے سوا۔ہم دونوں نے مل کر 1965 ء کو برج پورٹ میں ایک سب وے سینڈ وچ شاپ کھول لی۔یہی آگے چل کر دنیا کی نمبر ون کمپنی بنی۔ پہلے سال جہاں سیکھنے کو بہت کچھ ملا، وہاں مشکل حالات کا بھی خوب سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران مجھے احساس ہوا کہ بزنس کے پھیلاؤ کے لیے ایڈورٹائزنگ اور پبلسٹی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ویزیبلٹی بہت ضروری ہے۔یعنی دکان ایسی جگہ پر ہو، جو دور سے نظر آئے۔ اگلے ہی سال ہم دونوں دوستوں نے دوسرا اسٹور بھی کھول لیا۔ ہم نے ابتدا ہی سے اپنی پروڈکٹ ’’سینڈوچ‘‘ کی کوالٹی پر کوئی سمجھوتہ قبول نہ کیا۔ عمدہ معیار کی وجہ سے دِنوں میں ہمارے گاہک بڑھتے گئے۔

ہماری پروڈکٹ کا شہرہ ہونے لگا۔اس بڑھتی ہوئی مقبولیت اورہر دلعزیزی کو دیکھ کر میں نے عزم کیا کہ آئندہ 10 سالوں میں 32 اسٹور مزید کھولوں گا۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ یہاں ایک بات قابلِ غور ہے کہ میں اسی ایک اسٹور کو بھی بڑا کر سکتا تھا، لیکن اس میں کاہگوں کے لیے مسائل تھے۔ وہ ہمارے سینڈ وچ کو پسند کرتے تھے اور اس کے لیے انہیں سفر کی صعوبت بھی اٹھانی پڑتی تھی۔ مجھے یہ بات گوارا نہ تھی۔ اگر آپ بزنس کو ترقی دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے فرنچائزیں کھولیں۔ جب آپ کی ساکھ بن چکی ہوتی ہے تو کسٹمرز اپنے قریبی اسٹور سے آپ کی پروڈکٹ خریدنا پسند کرتے ہیں۔

فاسٹ فوڈز کے بزنس میں ضروری ہے کہ آپ مختلف جگہوں اور شہروں میں اپنی فرنچائز اور اسٹورز کھولیں۔ اتنی بات ضرور یاد رکھیں کہ اپنی پروڈکٹ اور کسٹمر سروس کی کوالٹی اور معیار میں رتی برابر فرق نہ آنے دیں، ورنہ آپ کا بزنس پانی کا بُلبُلہ ثابت ہو گا۔ کون جانتا تھا کہ فریڈ ڈیلوکا ڈاکٹر بن کر لوگوں کا علاج کرنے کے بجائے ان کی غذا کا سامان کرے گا۔ آج میری سب وے کمپنی 106 ممالک میں 41 ہزار 827 ریسٹورنٹ کے ساتھ موجود ہے۔ یہ دنیا میں فاسٹ فوڈز کی نمبر ون کمپنی ہے۔


Automatic Translated By Google

Those who do not submit fees on the 15th of every month will not be allowed to sit in class. ”After that announcement, there was no room for my anxiety. For a long time I was worried about my university fees. The circumstances of the house were not something I would put a heavy burden of burden on my parents’ shoulders. But I also had no means of paying him on a fixed day. I was very fond of becoming a doctor, but now I was feeling threatened that my doctor’s dream would not be a thief. went. The day to pay the fee was near and I was not in my pocket. I couldn’t understand what to do. My conscience did not allow anyone to spread their hands before anyone else. There was poverty in the house. So I worked at a store to cover my educational expenses. Was barely getting through the wages he was getting from there.

University fees were high, which was beyond my capacity. I couldn’t get it done with a part-time job. To alleviate my anxiety, I went to an old and long time friend of mine to offer her some advice or talk, which would lighten my anxiety and create a strong solution to this problem. In front of my eyes. It was a hot day. Driving sun and noon. I was in my friend’s house. There were signs of trouble on my face. When my friend Peterbuck saw me, my anxiety went away. I told the whole situation. He then advised me to “open a sandwich shop.”

“Taken in a palm fallen from heaven, the answer was much different than I expected. I got into deep thinking. Peter persuaded me that if I started this business he would be my partner too. It was very difficult for me to make that decision, I didn’t have anything to pay for the university. If I want money for business, where do I bring it from? Not only was this problem with me, but anyone in the world who wants to do business faces financial difficulties. I was too tired to do the job of others. Now the desire to start his own business started to ring. This desire was finally fulfilled by Peter. He gave me a thousand dollars as a loan to start a business. I thanked him. What should the blind do with two eyes? We both opened a subway sandwich shop in Bridgeport in 1965. It went on to become the number one company in the world. The first year where learning took a lot, there were difficult situations too. In the meantime I realized that advertising and publicity are desperately needed for business growth. Also, visibility is very important. This means that the shop should be in a place that is visible from a distance. The next year, our two friends opened another store. We did not initially accept any compromise on the quality of our product “sandwich”. Due to the excellent quality, our customers are growing in a matter of days.

Our product is becoming a city. Given this growing popularity and generosity, I am committed to opening 32 more stores in the next 10 years. To achieve this dream, heel peaks. One thing to consider here is that I could expand the same store, but there were problems for customers. They loved our sandwich and had to pay a visit. I didn’t mean that. If you want to promote the business, open a franchise for it. Once your reputation is established, customers love to buy your product from the nearest store.

Saifullah Aslam

Owner & Founder of Sayf Jee Website

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker