News

Pakistani created environment friendly aircraft engine

’آسمان کا مسئلہ زمین سے زیادہ سنگین اس لیے ہے کیونکہ زمین کے برعکس فضا میں آلودگی کم کرنے کے لیے درخت نہیں اگائے جا سکتے۔ فضا کے مسئلے کو فضا میں ہی حل کرنا بہت ضروری ہے۔‘

یہ کہنا ہے ایروناٹیکل انجینیئر ڈاکٹر سارہ قریشی کا، جن کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے ہوائی جہاز کا ایک ایسا انجن تخلیق کیا ہے جو فضا میں نقصان دہ گیسوں کا اخراج کم سے کم کر کے فضائی سفر کے ذریعے پھیلنے والی آلودگی کو کم کرنے میں مدد دے گا۔

ڈاکٹر سارہ برطانیہ کی کینفیلڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں جہاں ان کی پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کا تھیسیز ماحول دوست انجن کی تحقیق پر مبنی تھا۔

بی بی سی کی فیفی ہارون نے ان سے ایک خصوصی انٹرویو کیا ہے جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

ڈاکٹر سارہ کہتی ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہوائی سفر کی صنعت فروغ پا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہازوں کے انجن سے خارج ہونے والا دھواں فضائی آلودگی اور عالمی حدت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔

’زمین پر بھی درجہ حرارت بڑھ رہا ہے مگر آسمان میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہازوں کے انجنوں سے نکلنے والا دھواں فضا میں مصنوعی بادل تشکیل دیتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فضا میں دھویں کی ایک تہہ جم جاتی ہے جس کے باعث زمین کی گرمائش فضا میں نہیں جا سکتی، جس کو گرین ہاؤس ایفیکٹ بھی کہا جاتا ہے۔‘

جب جہاز کا انجن ایندھن استعمال کرتا ہے تو درحقیقت دو گرین ہاؤس گیسز، یعنی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے بخارات، پیدا ہو رہی ہوتی ہیں۔

’ہم نے ایک ایسا آلہ ایجاد کیا ہے جو جہاز کے انجن میں لگتا ہے۔ یہ آلہ جہاز کے انجن میں بننے والے دھویں کو انجن کے اندر ہی پراسیس کر کے اس میں سے پانی نکال علیحدہ کر لیتا ہے تاکہ نقصان دہ دھواں فضا میں خارج نہ ہو سکے۔‘

انھوں نے بتایا کہ اس آلے کے ذریعے اکھٹا ہونے والا پانی جہاز میں ہی جمع ہوتا رہتا ہے اور لینڈنگ سے قبل اسے ایک ہی مرتبہ بارش کی صورت میں جہاز سے ریلیز کر دیا جاتا ہے۔

کیا ہوا بازی کی صنعت اس کو قبول کرے گی؟

اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہوا بازی کی صنعت بہت کنٹرولڈ ہے، دو سے تین بڑی کمپنیاں ہیں جو جہازوں کے حوالے سے کام کرتی ہیں۔

’آٹو موبیل انڈسٹری نے بہت سے ضوابط بنا رکھے ہیں کہ سڑک پر آنے والی گاڑیاں مضر صحت دھواں خارج نہیں کریں گی اور ان ضوابط کو پورا کرنے کے لیے گاڑیوں کے انجنوں میں بہت سے آلات لگتے ہیں۔ اسی طرح ہوا بازی کی صنعت کو بھی اس حوالے سے قواعد و ضوابط کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنے والے بہت سے بڑے بین الاقوامی ادارے ابھی تک صرف اس حد تک پہنچے ہیں کہ جہاں وہ اعتراف تو کرتے ہیں کہ جہاز سے نکلنے والا دھواں ایک بری چیز ہے، لیکن ان اداروں کے پاس اس مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔

’اختلاف کرنے والے لوگوں کو میں صرف ایک بات کہتی ہوں کہ دیکھیے ہمارے پاس صرف ایک زمین ہے، اسی کو ہم نے بچانا ہے کیونکہ ہم نے اسی پر رہنا ہے۔ ہم میں سے کسی کے پاس بھی مریخ کی بکنگ نہیں ہے۔ یا تو مریخ پر بکنگ کا انتظام کر لیں یا اس کرہ ارض کو بچا لیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ہوا بازی کی صنعت کی سب سے بڑی توجہ زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے اور اسی سوچ کی بنیاد پر انجن ڈیزائن کیے جاتے ہیں۔ ’اب ہم نے ڈیزائن پیرامیٹرز ایسے بنانے ہیں جو ماحول کو کم سے کم خراب کریں اور ماحولیاتی آلودگی کا سبب نہ بنیں۔ ہم اسی بنیاد پر کام کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ اور کمپنیاں ہوا بازی کے شعبے میں ماحول کے لیے سازگار ٹیکنالوجی بنانے پر کام کر رہے ہیں مگر جس چیز پر ہم کام رہے ہیں اس پر کوئی خاص کام نہیں ہو رہا۔

قدم بڑھائیے، مواقع ملیں گے

انھوں نے بتایا کہ جب وہ سکول میں تھیں تو اسی وقت سے وہ ہوا بازی کے شعبے سے کافی متاثر تھیں۔

’خواتین سے یہ امید لگائی جاتی ہے کہ وہ مخصوص فیلڈز تک محدود رہیں، یعنی وہ کام جو آپ کے ارد گرد کا معاشرہ آپ کے لیے بہتر سمجھتا ہے۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی بیٹی ان سے بھی آگے جا کر خلاباز بننا چاہتی ہے۔

ڈاکٹر سارہ ایک ماہر پائلٹ بھی ہیں۔ ’جب آپ یک دم زمین سے آسمان کی طرف اڑتے ہیں تو وہ بہت ہی شاندار احساس ہوتا ہے۔‘

ڈاکٹر سارہ نے جہاز کے ذریعے فضا میں کرتب کرنا بھی سیکھ رکھا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فی الحال وہ فضائی کرتب والا کام نہیں کر پا رہیں کیونکہ پاکستان میں ایسے جہاز صرف ملٹری ہی کے پاس ہیں۔

نوجوان لوگوں کو مشورہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس میں کیا صلاحیت ہے اور وہ کیا بننا چاہتا ہے۔

’جب آپ ایک قدم اٹھاتے ہیں تو راستے کھلتے جاتے ہیں۔ میں نے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے لیے وظائف حاصل کیے اور اس طرح چیزیں آگے آگے بڑھتی چلی گئیں۔‘

’میرے پاس طالبعلم آتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم یہ کرنا چاہتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔‘

’میں ان کو کہتی ہوں کہ کسی بھی چیز کا سکوپ آپ خود بناتے ہیں۔ بس آپ میں جذبہ ہونا چاہیے۔ ہمیں انفرادی سطح پر لوگوں خاص کر خواتین کو اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ حوصلہ ضرور دینا چاہیے کہ آپ کر سکتی ہیں۔‘


Automatic Translated By Google

‘The problem of heaven is more serious than earth because the trees cannot be grown to reduce pollution in the atmosphere unlike the earth. It is very important to solve the atmosphere problem in the atmosphere itself. ‘

It says Aeronautical Engineer Dr. Sara Qureshi, who claims that she has created an aircraft engine that minimizes emissions of harmful gases in the atmosphere to reduce air pollution. Will help

Dr. Sara is a graduate of the University of Canfield, UK, where her PhD thesis is based on eco-friendly engine research.

The BBC’s Fifi Aaron has an exclusive interview with him, which is being presented below.

Dr. Sara says the air travel industry is booming over time and that is why the smoke from the aircraft’s engines is causing air pollution and global warming.

“The temperature is rising on earth but in the sky the situation is no different. The reason for this is that the smoke coming from the aircraft’s engines creates artificial clouds in the atmosphere. You can tell that a layer of smoke builds up in the atmosphere, causing the earth’s heat to move into the atmosphere, also known as the greenhouse effect. ‘

When the ship’s engine uses fuel, two greenhouse gases, namely carbon dioxide and water vapor, are actually being generated.

‘We have invented a device that looks like a ship’s engine. This device processes the smoke generated in the engine of the ship and separates it out of the engine so that no harmful smoke can escape into the atmosphere. ‘

He said that the water collected through this device keeps accumulating in the ship and once released before landing, it is released from the ship in case of rain.

Will the aviation industry accept this?

In response to this question, he said that the aviation industry is very regulated, there are two to three large companies that operate in relation to ships.

‘The automobile industry has set many rules that road vehicles will not emit hazardous smoke and vehicle engines require a lot of equipment to meet those rules. Similarly, the aviation industry needs rules and regulations in this regard. ”

He said that many major international organizations working on climate change have only reached the point where they admit that smoke from the ship is a bad thing, but these institutions have the problem. There is no solution.

“The only thing I say to those who disagree is that we have only one land, we have to save it because we have to live on it.” None of us have any bookings for Mars. Either make a booking on Mars or save the planet. ‘

He said that the biggest focus of the aviation industry is to make maximum profit and based on this thinking, engines are designed. “Now we have to create design parameters that minimize the environment and do not cause environmental pollution. That’s what we’re working on. “

He said that many people and companies are working to create environmentally friendly technology in the aviation sector, but what we are working on is not doing anything special.

Take action, there will be opportunities

She said that when she was in school, she was very impressed with the aviation sector.

“Women are expected to be limited to specific fields, that is, the work that the community around you thinks is best for you.” However, he said that was not the case with them.

He said that his daughter wants to be even more astronaut.

Saifullah Aslam

Owner & Founder of Sayf Jee Website

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker