اکثر و بیشتر چند افراد قسطوں پر سامان لینے کے حوالے سے متذبذب دِکھائی دیتے ہیں کہ آیا یہ ٹھیک بھی ہے یا نہیں۔ کوئی کہہ رہا ہوتا ہے کہ پیسے کے بدلے پیسہ دیں تو وہ سود کہلائے گا جبکہ سامان کے بدلے پیسے دیئے تو وہ سود نہیں ہو گا۔
چند شرائط کے ساتھ قسطوں پر سامان لینا بلکل درست ہے جبکہ اسے سود کہنا انتہائی غلط ہے۔ سود وہ کہلائے گا جب پیسے دے کر اوپر سے زیادہ پیسے وصول کیے جائیں۔
دارالافتاء بنوری ٹاؤن کی تحقیق کے مطابق بینک اسلامی ہویا غیر اسلامی، ان سے قسطوں پر گاڑی وغیرہ لینا درست نہیں ہے۔
قسطوں پر درست خریدوفروخت کرنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص یا ادارہ اگر کوئی چیز مثلاً گاڑی، فریج یا گھر وغیرہ کسی کو ادھار میں بیچ دے اور قیمت قسطوں میں وصول کرے۔ اس قسم کی خریدوفروخت میں اگر قیمت کی ادائیگی کی مدت طے ہے اور قسط میں تاخیر پر کوئی جرمانہ نہیں ہے اور ایک وقت میں ایک ہی سودا ہے اور انشورنس وغیرہ کی شرط نہیں ہے تو یہ جائز ہے۔
Automatic Translated By Google
Often, a few people look reluctant to buy goods on installments whether they are fine or not. Someone is saying that if you give money in return for money, then it will be called interest while giving money in return for goods will not be interest.
With a few conditions it is perfectly OK to buy goods on installments, while calling it interest is extremely wrong. Interest will be called when the money is received from the top with money.
According to the research of Darfalfa Banuri Town, it is not proper for the bank to be Islamic or non-Islamic.
The only way to be able to sell on installments is if a person or company sells something like a car, refrigerator or house etc. to a lender and receives the price in installments. In this type of purchase, if the payment period is fixed and there is no penalty for delay in installment and there is only one deal at a time and there is no condition of insurance etc.