ایران نے قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمان کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد منگل کی شب جوابی کارروائی میں عراق میں واقع دو امریکی فوجی اڈوں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے۔ فارس نیوز ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس حملے میں 80 امریکی فوجی ہلاک گئے ہیں۔
قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمان کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد دونوں ممالک کے درمیان شدید کشیدگی پائی جاتی ہے- دونوں ممالک کے درمیان جنگ کا بھی خطرہ موجود ہے-
ایسے میں اگر بات کی جائے فوجی طاقت کی تو ایران کے پاس موجود میزائل حملے کرنے کی صلاحیت اس کی فوجی طاقت کا ایک اہم حصہ ہے۔
اس کے سب سے خطرناک میزائل کا نام شہاب تھری (Shahab 3) ہے جو دو ہزار کلو میٹرکی دوری کا سفر کرنے کے بعد اپنے اہداف سے ٹکرا سکتا ہے۔
ایران اپنے میزائل پاکستان، انڈیا، عراق، چین، مصر، روس، ترکی سمیت کئی ہمسایہ ملکوں میں موجود نشانوں پر داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران کی میزائل قوت مشرقِ وسطیٰ میں سب سے بڑی ہے اور یہ بنیادی طور پر مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں پر مبنی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ایران خلائی ٹیکنالوجی کی آزمائش کر رہا ہے تاکہ یہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے بین البرِاعظمی میزائل تیار کر سکے۔
مگر رائل یونائٹڈ سروسز انسٹیٹوٹ تھنک ٹینک (روسی) کے مطابق 2015 میں دیگر ممالک کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے کے بعد ایران نے اپنے لانگ رینج میزائل پروگرام پر کام روک دیا تھا۔ مگر رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ معاہدے کے حوالے سے موجود غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے اس نے یہ پروگرام دوبارہ شروع کر دیا ہو۔