پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر لاہور میں واقع درگاہ شاہ جمال میں آج معمول سے زیادہ رش ہے۔ صدیوں سے چلی آ رہی روایات کے مطابق ہر جمعرات کو نیاز مند یہاں جمع ہوتے ہیں۔
کچھ صرف فاتحہ پڑھ کر عقیدت کے پھول نچھاور کر رہے ہیں تو منتیں اور مرادیں مانگنے آئے سائلیں مزار کی جالی سے لگے ہاتھ اُٹھائے دعاؤں میں مشغول ہیں۔ وہ خوش نصیب جن کی مرادیں بَر آئی ہیں بھوکوں کو کھانا کھلا کر پھولے نہیں سما رہے۔
لیکن مزار کے صحن میں ایک الگ ہی نظارہ ہے۔ ڈھول کی آواز بتا رہی ہے کہ دھمال ڈالا جا رہا ہے اور فقیر اور ملنگ والہانہ رقص کر رہے ہیں۔ کچھ منچلے اپنے سمارٹ فون پر اِس منظر کو محفوظ کر رہے ہیں جبکہ کچھ سیلفیوں پر ہاتھ آزما رہے ہیں۔
لیکن اِس نظارے کی جان نہ تو ملنگوں کا دھمال ہے اور نہ ہی فرنٹ کیمرے والے یہ سمارٹ فونز۔
مجمع کی توجہ کا مرکز درمیانے قد کی وہ لڑکی ہے جو بال پھیلائے گلے میں پڑے ڈھول کو دیوانہ وار پیٹ رہی ہے۔ جینز اور ٹی شرٹ کے اوپر چادر اوڑھے، پاؤں میں نائیکی کے نارنجی سنیکرز کے ساتھ کلائی پر نئے ماڈل کی آئی واچ باندھے یہ لڑکی کہیں سے بھی روایتی ڈھولچی نہیں لگتی۔
درد سہنے کا ذریعہ
جنوری کی ایک سرد دوپہر جب میں حوریا سے ملنے اُن کے گھر ڈیفنس فیز تھری پہنچا تو وہ ابھی ابھی سو کر اُٹھی تھیں۔ انھوں نے بتایا کہ وہ اکثر رات دیر تک درگاہوں پر وقت گذارتی ہیں اور اِسی لیے دیر سے سو کر اُٹھتی ہیں۔ میرے سوال پر کہ ڈھول بجانے کا انوکھا اور منفرد شوق کیسے ہوا تو انھوں نے بتایا کہ اُنھیں کبھی بھی موسیقی کا شوق نہیں تھا۔
’سنہ 2012 اور سنہ 2013 میں ایک مختصر عرصے کے دوران میرے ساتھ کئی ایسے سانحات پیش آئے جنھوں نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔ پہلے میرے والد، پھر بیٹا اور پھر شوہر انتقال کر گئے۔ وہ میرے لیے بہت مشکل وقت تھا۔ میں تنہا ہو گئی تھی۔‘
’اُس درد اور غصے کو میں نے ڈھول کے ذریعے دور کیا۔ میں نے ایک ڈھول خرید لیا۔ مجھے بجانا تو آتا نہیں تھا لیکن اپنی فرسٹریشن نکالنے کے لیے میں اُسے مسلسل پیٹتی تھی۔ اِس طرح مجھے بے حد سکون ملتا تھا۔‘
ڈھولچی استاد
ذاتی صدمے سے نمٹنے کے لیے خریدے گئے ڈھول نے حوریا کے اندر موسیقی کا بیج بو دیا۔ وہ اپنوں کے بچھڑنے کے غم سے تو نکل آئیں لیکن اب اُن پر اِس ساز کو سیکھنے کا بھوت سوار ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا، وہ استاد ڈھونڈنے چل پڑیں۔
’میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے ڈھول بجانے کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنی چاہیے۔ جب میں نے ٹیچر کی تلاش شروع کی تو مجھے پتا چلا کہ یہ ساز درگاہوں سے منسلک ہے جہاں فقیر اِسے بجاتے ہیں۔‘
اِس طرح حوریا عصمت کی ملاقات گونگا سائیں اور مٹِھو سائیں سے ہوئی جو خود بھی نامور ڈھولی ہیں۔ انھوں نے حوریا کو اپنی شاگردی میں لے کر ڈھول کی ٹریننگ کا آغاز کر دیا۔
سخت جسمانی محنت
لیکن شاید حوریا کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام کتنا محنت طلب ہے۔
’اُس زمانے میں میں میڈیکل کی طالبہ تھی اور یہ مضمون مجھے بہت مشکل لگتا تھا۔ لیکن جب میں نے ڈھول سیکھنا شروع کیا تو مجھے میڈیکل آسان لگنے لگا۔‘
حوریا یاد کرتی ہیں کہ جب اُن کی سہلیاں نیل پالش لگا رہی تھیں اور ہاتھوں کو مینیکیور کروا رہی تھیں تو وہ ڈھول بجانے کی ٹریننگ کے دوران اپنے ہاتھ زخمی کر رہی تھیں۔
’شروع شروع میں تو اِس وزنی ڈھول کو اُٹھانا ہی عذاب تھا۔ ابتدا میں میں اِسے صرف چند سیکنڈ ہی بجا پاتی تھی۔ ڈھول بجانے والی لکڑی بار بار ہاتھ سے ٹکراتی تھی تو اُنگلیاں چھِل جاتی تھیں اور زخم پڑ جاتے تھے۔ اب تو میرے ہاتھوں کی انگلیوں کی ساخت ہی تبدیل ہو گئی ہے ڈھول بجا بجا کر۔‘
لوگوں سے لڑائی
جس معاشرے میں لڑکیوں کو تعلیم جیسے بنیادی حق کے لیے گھر والوں اور سماج سے لڑائی لڑنی پڑے وہاں اگر ایک دن بیٹی اُٹھ کر یہ اعلان کر دے کہ وہ درگاہوں پر ڈھول بجائے گی تو خاندان والوں کا ردعمل فطری ہے۔
’یہ تو پھر ڈھول بجانا تھا اور وہ بھی درگاہوں پر مردانہ لباس پہن کر۔ تو پہلے مجھے فیملی سے جنگ کرنی پڑی، پھر معاشرے کو سمجھانا پڑا۔ میرے معاملے میں میری دوستوں نے بھی کوئی خاص حوصلہ افزائی نہیں کی۔‘
’ہاں یہ ضرور ہے کہ کچھ عرصے بعد والدہ نے میری سپورٹ شروع کر دی۔ اُنھیں پتا تھا کہ میں جو سوچ لیتی ہوں وہ کر گزرتی ہوں۔ تو اِس طرح وہ میری طرفدار بنیں۔‘
لیکن حوریا آج بھی پدرسری معاشرے کے رویے سے نالاں نظر آتی ہیں۔
’ہمارے یہاں عورت کی چھوٹی سی غلطی بھی بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے۔ لوگ اب بھی بہانے کی تلاش میں رہتے ہیں کہ میں کہاں غلطی کرتی ہوں۔ وہ اِسی تاک میں رہتے ہیں کہ کہاں ’لے‘ رہ گئی ہے اور کہاں کوئی لفظ مسِ ہو گیا ہے تاکہ مجھے نیچا دکھایا جا سکے۔‘
مَردوں میں تنہا لڑکی
اولیا کرام کی درگاہیں ہمیشہ سے ایک ایسا عوامی مقام رہی ہیں جہاں خواتین کم کم ہی نظر آتی ہیں۔ سماجی اور مذہبی روایات کا سہارا لے کر اکثر عورتوں کو مزارات کے اندر داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ایسے میں اگر ایک لڑکی درگاہوں کی مرکزِ نگاہ بن جائے تو یقیناً یہ ایک انھونی بات ہے۔
حوریا عصمت بتاتی ہیں کہ ’میں نے بچپن کا بیشتر حصہ اپنے بھائی کے ساتھ گزارا ہے۔ اسی لیے مجھے مزارات اور درگاہوں میں مردوں کے بیچ پرفارم کرنا کچھ زیادہ عجیب نہیں لگا۔ لیکن جب میڈیا اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے میری حوصلہ افزائی کی جانے لگی تو مجھے اندازہ ہوا کہ یہ واقعی ہمت کا کام ہے۔‘
حوریا عصمت کو کئی کلو وزنی ڈھول گلے میں ڈالے عالمِ وجد میں دیکھنا یقیناً لوگوں کے لیے ایک انوکھا نظارہ ہے۔
Automatic Translated By Google
There is more than usual rush today in Dargah Shah Jamal, Lahore, in the Punjab province of Pakistan. According to centuries-old traditions, every Thursday, noblemen gather here.
Some are just declaring the flowers of the devotion by reading the winners, so the mantras and monks who come to ask for prayers are busy praying with their hands raised from the net of the shrine. The fortunate ones who have bad intentions are not feeding the hungry and are unable to afford flowers.
But there is a different view in the courtyard of the shrine. The sound of the drum is saying that Dhamal is being put down, and the poor and mingling are dancing. Some fans are saving the scene on their smart phones while others are trying their hand at selfies.
But the life of the scene is neither milling nor the front-facing smartphones.
The focus of the gathering is the medium-sized girl, who is beating the drum in her throat spreading hair. Wearing a new model’s watch on the wrist with Nike’s orange snickers in jeans and a T-shirt top, Nike’s orange sneakers don’t look anywhere too traditional.
A source of pain relief
One cold January afternoon, when I arrived at Defense Phase 3 at her home to meet Horia, she was still asleep. She said that she often spends the night at the courtyards and therefore sleeps late at night. On my question of how unique and unique a fond playing drum was, he said that he had never been fond of music.
“During a short period of time in 2012 and 2013, I had a number of tragedies that changed my life. First my father, then son and then husband died. That was a very difficult time for me. I was alone. ‘
‘I removed the pain and anger through the drum. I bought a drum. I didn’t know how to play, but I used to beat him constantly to get my fistrations removed. That was how I felt so comfortable. ‘
Sochi Master
The drum purchased to deal with personal trauma sowed the badge of music within Huria. They came out of the grief of their own fall, but now the ghost of learning this instrument has come to them. What was it then, they started looking for a teacher.
‘I decided that I should get regular drum training. When I started looking for a teacher, I found out that this instrument is connected to the shrines where the monks play it. ‘
In this way, Huria Asmat was met with dumb bees and moths, who are also famous dolls themselves. He took Huria into his pupil and began drum training.