News

See how ancient people used to cook, some interesting ways

پرانے زمانے کے لوگ کیسے کھانا بناتے تھے، دیکھیں کچھ دلچسپ طریقے

ان میں سے تین تختیاں 1730 قبل مسیح کی ہیں اور چوتھی ایک ہزار برس بعد کی ہے۔ چاروں تختیوں کا تعلق قدیم عراقی تہذیب سے ہے جن میں بابلی اور آشوریی تہذیبیں شامل ہیں۔ یہ علاقے اب عراق، شام اور ترکی میں آتے ہیں۔

پہلی تین تختیوں میں سالن والے تقریباً 25 پکوانوں میں استعمال ہونے والی چیزوں کا ذکر ہے۔ دو اور تختیوں پر مزید دس سالن کا ذکر ہے، جن کے ساتھ انھیں پکانے کے طریقے اور پیش کرنے کے مشورے بھی شامل ہیں لیکن وہ اتنی خراب حالت میں ہیں کہ انھیں پڑھنا ممکن نہیں ہے۔

ماہرین کے سامنے بڑا چیلنج یہ ہے کہ تاریخ کے اوراق میں قید ان ترکیبوں کو جدید دور کے مصالحے استعمال کرتے ہوئے ایسے تیار کیا جائے کہ اصل ذائقہ برقرار رہے۔

ہاورڈ یونیورسٹی کی فوڈ کیمسٹ پیا سورینسن کہتی ہیں ’یہ نسخے زیادہ تفصیلی نہیں ہیں، بمشکل چار لائینوں میں ترکیبیں بتائی گئی ہیں۔ یعنی بہت کچھ تصوراتی ہے۔‘

پکوان تیار کرنے میں یورادو گونزالس ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔گونزالس کہتے ہیں ’چار ہزار برس قبل استعمال ہونے والی چیزیں اور حال ہی میں کھانا پکانے میں استعمال ہونے والی چیزیں ایک جیسی ہیں۔گوشت کا ٹکڑا تو گوشت کا ٹکڑا ہے۔

کھانا پکانے کی سائنس آج بھی ویسی ہی ہے جیسے تب تھی۔‘ پکوان تیار کرنے میں وہ اسی بنیادی سائنس کا سہارا لے رہے ہیں۔انسانی ذائقوں کے بارے میں سائنسدانوں کی معلومات، ان میں استعمال ہونے والی اشیا کے بارے میں معلومات اور مصالحوں کی مقدار کو معقول اندازے سے ایک ساتھ استعمال کر کے ان پکوانوں کو اصل ذائقے سے قریب ترین میں تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سورنسن نے بتایا کہ اس میں استعمال ہونے والی اشیا کی بنیاد پر ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پکوان کوئی سوپ تھا یا کچھ اور۔ زیادہ تر معاملوں میں یہ سالن ہیں۔محقیقین کا خیال ہے کہ یہ دنبے کے سٹو کا ابتدائی روپ ہے، جو آج بھی عراق میں مقبول ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تختیوں پر لکھی سبھی ڈشز کسی خاص مقصد کے لیے تیار کی جانے والی ڈشز ہیں، مثال کے طور پر ان میں ایک ڈش ’پشروتم‘ ہے جو کہ ایسا سوپ ہے جو زکام سے متاثرہ افراد کو راحت پہنچا سکتا ہے۔برڑامووچ نے بتایا کہ فہرست میں دو بیرونی ممالک کے پکوان بھی شامل ہیں تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسا تو اب بھی ہوتا ہے۔ جیسے لزانیا اور ہومس جیسی کھانے کی چیزیں اب دنیا بھر میں مقبول ہیں اور مختلف انداز میں کھائی جاتی ہیں۔

برڑامووچ کہتے ہیں ’ان چار ہزار برس پرانی تختیوں سے ان پکوانوں کے متعلق ایک جھلک ملتی ہے۔ کچھ پکوان ان کے اپنے ہیں اور کچھ پردیسی ہیں۔ جو پردیسی پکوان ہیں وہ برے نہیں، صرف مختلف ہیں۔‘تختی پر لکھی ایک ڈش ’ایلامائٹ‘ سالن ہے جسے تیار کرنے میں گوشت کے ساتھ خون بھی استعمال ہوتا ہے۔ ایسا اسلامی اور یہودی مذہب میں ممنوع ہے ۔

لیکن اس ڈش کا جنم موجودہ ایران میں ہوا تھا۔اس میں سووہ بھی استعمال کیا جاتا ہے، جس کا ذکر تختیوں میں کہیں اور نہیں ملتا لیکن یہ فرق آج بھی موجود ہے۔ عراقی پکوانوں میں سووہ کا استعمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے۔تاہم ایرانی پکوانوں میں سووہ کا استعمال بہت عام ہے۔ برڑامووچ کہتے ہیں کہ اس سے پتا چلتا ہے کہ پکوانوں کا تہذیبوں کے درمیان تبادلہ قدیم دور سے جاری ہے۔اس سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس دور میں بھی مختلف تہذیبوں کے درمیان کاروبار اور دوسروں کے طور طریقوں کی قدر کا جذبہ موجود تھا۔ یہ بھی پتا لگتا ہے کہ اس دور کے خانسامے بھی کسی خاص دعوت میں اپنے ہنر کی نمائش کے بارے میں سنجیدہ تھے


Automatic Translated By Google

Three of these plaques date from 1730 BC and the fourth is a thousand years later. All four plates belong to the ancient Iraqi civilization, including the Babylonian and Assyrian civilizations. These areas now come to Iraq, Syria and Turkey.

The first three plates refer to the items used in about 25 dishes a year. Two more plates are mentioned for another ten years, including tips on how to cook them and presentations, but they are in such a bad state that they are impossible to read.

The major challenge facing experts is to prepare these recipes using modern-day spices in order to preserve their original taste.

Howard University Food Chemist Pia Sorenson says: ‘These prescriptions are not very detailed, barely four lines contain recipes. That is a lot of imagination.


A piece of meat is a piece of meat. The science of cooking is the same as it was then. ”He is using the same basic science in preparing dishes. Scientists are trying to prepare these dishes closest to the original taste by using scientific information about human flavors, information about the ingredients used and the amount of spices they reasonably combine.

Saifullah Aslam

Owner & Founder of Sayf Jee Website

Leave a Reply

Back to top button
Close

Adblock Detected

Please consider supporting us by disabling your ad blocker